Select Menu

اہم خبریں

clean-5

ad

Islam

Iqtibasaat

History

Photos

Misc

Technology

Misc

Technology

انگلینڈ میں اعضا لازمی عطیہ کرنے کا نیا قانون: ’یہ میرا دل ہے لیکن یہ میرا نہیں‘ New organ donation law in England: 'This is my heart but this is not mine'

انگلینڈ میں اعضا کو لازمی طور پر عطیہ کرنے کا نیا قانون، سوائے ان لوگوں کے جو یہ وصیت کریں گے کہ ان کے اعضا نہ لیے جائیں، بدھ سے نافذالعمل ہو گیا ہے اور اس سے ہر برس 700 زندگیاں بچائی جا سکیں گیں۔
اس نئے قانون سے ہر برس 700 زندگیاں بچائی جا سکیں گی۔
چار ایسے افراد جن کی زندگیوں میں اس پیوند کاری کی وجہ سے تبدیلی آئی ہے، انھوں نے اپنے تجربات ہمیں بتائے ہیں۔
یہ میرا (دل) ہے لیکن یہ میرا نہیں
A new law on mandatory organ donation in England, with the exception of those who will not have their organs donated, came into force on Wednesday and could save 700 lives each year. The new law will save 700 lives each year. Four people whose lives have changed as a result of this transplant have told us their experiences. "It's mine, but it's not mine.
حنا شرما گزشتہ برس ہسپتال گئی تھیں۔ ان کو خدشہ تھا کہ شاید انھیں سینے میں انفیکشن ہو گئی ہو لیکن وہاں پتہ چلا کہ ان کا دل ختم ہونے کے قریب ہے۔
اس وقت تو صحت مند اور بہتر تھیں لیکن پھر پتہ چلا کہ شاید انھیں ’ڈائیلیٹڈ کارڈیومائیوپیتھی‘ نامی وائرل انفیکشن ہو گیا تھا۔
حنا شرما ایسیکس کے ایک قصبے مےفیلڈ کی رہائشی ہیں۔ انھیں ہسپتال میں کئی مرتبہ داخل ہونا پڑا۔ انھیں انفیکشن کے شدید اثرات سے بچنے کے لیے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں بھی رہنا پڑا۔ لیکن وہ اتنا زیادہ بیمار ہو گئیں کہ انھیں احساس ہو گیا کہ انھیں اپنے آپ کو اب از سرِ نو تبدیل کرنا ہو گا۔
جب ان کے کنسلٹنٹ نے انھیں دل کی پیوندکاری کا مشورہ دیا تو 29 برس کی حنا نے کہا کہ ان کی ڈھارس بندھی لیکن اس پیوندکاری کے اپنے مسائل بھی تھے۔ اُنھیں چھ ہفتے تک کسی کے دل کے آنے کا انتظار کرنا پڑا۔
اس دوران دو دل دستیاب تو ہوئے تھے لیکن وہ دونوں ان کے جسم کے لیے مناسب نہیں تھے یعنی وہ ’میچ‘ نہیں کرتے تھے۔ جب تیسرے دل کے دستیاب ہونے کی اطلاع ملی تو کوئی خاص خوشی نہیں ہوئی، کوئی خاص ہیجان پیدا نہیں ہوا۔
حنا نے کہا: ’ہم اپنے کمرے میں گانے سن رہے تھے اور محظوظ ہو رہے تھے۔‘
مزید پڑھیے:
حنا شرما کو معلوم تھا کہ وہ ہستال میں لمبے عرصے کے لیے آئی تھیںتصویر کے کاپی رائٹHANNAH SHARMA
Image captionحنا شرما کو معلوم تھا کہ وہ ہستال میں لمبے عرصے کے لیے آئی تھیں
حنا کے دلی کی پیوندکاری کے آپریشن میں ساڑھے چار گھنٹے لگے اور وہ اینیستھیزیا کے اثر سے اگلے دن ہوش میں آ گئیں۔
’مجھے یاد ہے کہ میں اپنے بیڈ پر بیٹھی ہو ئی تھی اور میں اس کی آواز سُن رہی تھی، میں سوچ رہی تھی میں اپنے دل کے دھڑکنے کی آواز سُن رہی ہوں۔ یہ بہت زیادہ آواز تھی لیکن یہ میرے دل کی (دھڑکنے کی) آواز نہیں تھی۔ میرا دماغ یہ سمجھ ہی نہیں پا رہا تھا۔‘
چوبیس گھنٹوں کے اندر ہی حنا نے اپنے بیڈ سے اٹھنا شروع کر دیا۔
پیوند کاری کے ایک ہفتے کے بعد انھوں نے اپنی بہت پرانی دبی ہوئی خواہش کو پورا کیا اور اپنی بہن کو بھیج کر پیارے سے کتے کا بچا خریدا۔ یہ وہ کتا تھا جو انھوں نے ہسپتال میں قیام کے دوران فیس ٹائم پر دیکھا تھا اور پیوندکاری کے دو ہفتوں کے بعد جب وہ ہسپتال سے فارغ ہوئیں تو یہ کتا ان کے حوالے کردیا گیا۔
’میں کافی عرصے ایک کتے کو پالنے کی خواہش رکھتی تھی مگر میری امی تو صاف کہتی تھیں، نہیں، تم کتا نہیں رکھ سکتی، لیکن میں ہمیشہ کہتی مجھے تو یہ ابھی چاہیے ہے، زندگی یہی ہے۔‘
حنا شرما کہتی ہیں کہ اب مستقبل ذرا ’تیکھا‘ ہے۔ ان کو میڈیسن کے استعمال کے اضافی مسائل (سائیڈ ایفیکٹس) کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اب اس بات کا ہمیشہ خطرہ ہے کہ جو دل لگایا گیا اُسے ان کا جسم کسی بھی وقت مسترد کرسکتا ہے۔
حنا کہتی ہیں جب وہ آپریشن کے بعد صحت مند ہو رہی تھیں تو وہ عطیہ دینے والے شخص کے بارے میں سوچ رہی تھی، وہ پچپن برس کی عورت جس کے اہلِخانہ کو وہ ایک خط لکھیں گی۔
’جس طرح میں نے سوچا تھا زندگی اس سے بہت مختلف ہے لیکن میں اس میں اپنا وقت صرف نہیں کرنا چاہتی ہوں اور جب تک میں صحت مند ہوں میں ایک بھر پور زندگی گزارنا چاہتی ہوں۔‘
’کچھ لوگ دل کی پیوندکاری کے بعد 35 برس تک بھی زندہ رہے ہیں، اس لیے میں کئی برس زندہ رہ سکتی ہوں۔ ایک جانب یہ خوف پیدا کردیتا ہے لیکن شاید میری زندگی پچھلے برس ہی ختم ہو چکی ہوتی۔۔۔ اس لیے میں زندگی کے ہر لمحے کے لیے شکر ادا کرتی ہوں۔‘
یہ مداق نہیں ہے، یہ اس سے بھی برا ہوسکتا تھا
فیضان کے گردے کی پیوندکاری تین برس کی عمر میں ہوئی تھی اور اب وہ تیسری پیوندکاری کا انتظار کر رہے ہیں۔
فیضان اعوان کو پیدائش کے وقت ہی سے نئے گردے کی ضرورت تھی۔ اس لیے انھیں یاد نہیں کہ تین برس کی عمر میں گردے کی پیوندکاری کی گئی تھی لیکن انھیں اتنا ضرور یاد ہے کہ ان کی زندگی باقی بچوں سے مختلف انداز میں گزری۔
وہ اس دوران کسی سپورٹس میں حصہ نہیں لے سکتے تھے اور جب ان کے ہم عمر سینیما جاتے انھیں ڈائیلاسس کے لیے جانا پڑتا تھا۔ چودہ برس کی عمر میں ان کا دوسرا آپریشن ہوا تھا اور پھر ایک اور گردے کی پیوندکاری ہوئی جو ان کے والد نے عطیے کے طور پر دی تھی۔
برطانوی ادارے نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے مطابق پیوندکاری کے ایک گردے کی اوسط عمر دس سے پندرہ برس ہوتی ہے۔
اس لیے اب چونتیس برس کی عمر تک پہنچنے والی فیضان اعوان کو تیسری مرتبہ نئے گردے کی پیوندکاری درکار ہے لیکن وہ اور ان کے اہلِخانہ حقائق کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں او جانتے ہیں کہ انھیں کیا توقع رکھنی چاہیے۔
’اس وقت تک ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے ہیں سوائے یہ کہ ہم انتظار کریں۔‘
فیضان اعوانتصویر کے کاپی رائٹFAIZAN AWAN
Image captionفیضان اعوان کے گردے کی پیوندکاری کا پہلا آپریشن تین برس کی عمر میں ہوا تھا جس کے بعد انھوں نے پہلی مرتبہ ٹھوس غذا کھائی
فیضان کہتے ہیں کہ وہ گزشتہ پانچ برس سے گردے کے عطیے کا انتظار کر رہے ہیں کیونکہ اقلیتوں میں اپنے اعضا عطیہ کرنے کا رجحان بہت کم ہے۔
انھیں امید ہے کہ قانون میں تبدیلی سے انھیں گردہ ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے کیونکہ اس سے جنوبی ایشیا کی کمیونیٹیز میں اس موضوع پر زیادہ بات چیت ہو گی اور وہ انسانی اعضا کے عطیات دینا شروع کر سکتے ہیں۔
’کچھ تو اس میں نسلی تعصب ہے۔ میرے دادا اور نانا کی نسل اور ان سے پچھلی نسل نے پاکستان میں کبھی بھی انسانی اعضا کا عطیہ نہیں دیا۔ اس وقت یہی معمول تھا جب وہ ہجرت کر کے یہاں آئے جبکہ یہاں کا نظام کچھ اور تھا۔‘
’اسلام میں کئی ایک ایسی باتیں ہیں جنھیں آپ اعضا کا عطیہ کرنے کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی ایک واضح حکم نہیں ہے کہ ہاں آپ عطیہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔‘
فیضان اعوان اب این ایچ ایس کے انسانی اعضا عطیہ دینے کے لیے بیداری پیدا کرنے کے پیغام کے سفیر ہیں اور لنکاشائر اور ساؤتھ کیمبریا کی کڈنی پیشنٹس ایسوسی ایشن کے رضاکار ہیں جہاں وہ بیمار افراد اور ان کی نگہبانی کرنے والوں کی ڈائیلاسس اور گردوں کی پیوندکاری میں مدد کرتے ہیں۔
فیضان کا کہنا ہے ’لوگوں کو ایک لحاظ سے سکون ملتا ہے کہ یہ کوئی دنیا کا بدترین کام نہیں ہے۔ یہ مذاق نہیں ہیں، یہ اس سے بھی بدتر ہو سکتا تھا۔‘

تبدیلی کیا آئی ہے؟

بدھ سے یہ تصور کیا جائے گا کہ انگلینڈ میں تمام بالغوں نے اپنے مرنے کے بعد اپنے اعضا عطیہ کرنے کی رضا مندی دے دی ہے سوائے ان کے جنھوں نے اس رضا مندی کے عمل سے باقاعدہ استثنیٰ مانگا ہوا ہے یا وہ اس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں جنھیں اعضا عطیہ کرنے والوں سے علحیدہ کر دیا گیا ہے۔
اس نئے قانون کو میکس اینڈ کیئرا کے قانون کا نام دیا گیا ہے، اس قانون کو دو بچوں کا نام دیا گیا ہے۔
نو برس کی کیئرا بال نے چار زندگیاں بچائی تھیں جن میں ایک نو برس ہی کی میکس جانسن بھی شامل تھی۔ کمسنی میں کار حادثے میں موت کے بعد ان کے والد نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ ان کے اعضا عطیے کے طور پر ضرورت مندوں کو دے دیے جائیں۔
این ایچ ایس کے مطابق اندازہ ہے کہ قانون میں اس تبدیلی کے بعد انگلینڈ میں سنہ 2023 تک ہر برس سات سو زندگیاں بچائی جا سکے گیں۔

انسانی اعضا کے عطیے پر کھل کر بات چیت جاری ہے

لورا بِیٹی اور ان کی بہنتصویر کے کاپی رائٹLAURA BEATIE
Image captionلورا بِیٹی اور ان کی بہن نے عورتوں کے لباس بنانے کا ایک نیا برانڈ بنایا
دو برس قبل لورا بِیٹی کو جس خبر کا کافی عرصے سے انتظار تھا، وہ انھیں سنائی گئی کہ ان کے پھیپھڑوں کی پیوند کاری کی جائے گی۔
اکتیس برس کی لورا کو پیدائیشی طور ’سسٹک فائبروسس‘ کی بیماری تھی، زندگی کو مختصر کردینے والی خاندانی بیماری جس سے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
سنہ 2016 میں ان کی سانس پھولنے کی تکلیف میں مزید اضافہ ہو گیا اور ان کی حالت بدتر ہونا شروع ہو گئی، ان کا معائنہ ہوا تاکہ انھیں پیوندکاری کے لیے منتخب کیا جائے۔
یہ جاننے کے بعد کہ انھیں پیوندکاری کی ضرورت ہے لورا بِیٹی نے این ایچ ایس کے ماہرین اور ماہرینِ نفسیات کی ٹیم کے ساتھ اس عمل کے لیے تیار ہونا شروع کردیا۔
„میں شاید تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہ تھی۔ میں نے شاید ہر بات کے لیے اپنے آپ کو تیار کیا۔ میں بس اپنے آپ میں پریشان ہو رہی تھی۔ اور میں خوف زدہ بھی تھی۔ میرا اس سے پہلے کبھی کوئی آپریشن بھی نہیں ہوا تھا۔‘
’آپ اس کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔ اب آپ سوچ لیں کہ جب پیوندکاری کا آپریشن ہو رہا ہو تو آپ کا ہر قسم کا ٹیسٹ ہوتا ہے اور یہ سب کچھ آپ کو مصروف رکھتے ہیں آپ پر مکمل توجہ رکھتے ہیں تاکہ سب چیزیں بہترین ہوں۔‘
’اور اس دوران آپ کے ملے جلے جذبات ہوتے ہیں اور آپ میں ہر دن نئے احساسات پیدا ہوتے ہیں۔‘
لورا کو اپنے سائز کا لباس ڈھونڈنے میں مشکل پیدا ہوتی تھی، ان کی پسلیاں بیماری کی وجہ سے کچھ زیادہ بڑی تھیں۔
لورا کی بہن راشیل، اس وقت چودہ برس کی تھیں، ان کے ذہن میں ایک نیا خیال آیا کہ کیوں نہ وہ اپنا ایک نیا برانڈ شروع کریں۔ اور اب ایک دہائی کے بعد وہ مانچسٹر، اٹلی اور پرتگال کی ٹیموں کے ساتھ کام کر رہی ہیں۔
لورا بِیٹی کہتی ہیں ’یہ ایک مضبوط ارادے اور ہمت نہ چھوڑنے کی بات ہے۔ میں اپنے علاج کے کے لیے اور اپنے آپ کو بہتر حالت میں رکھنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرتی ہوں، اپنے کاروبار کے لیے بھی محنت کرتی ہوں، یہ دونوں ایک ہی طرح کی باتیں ہیں۔‘
’یہ کبھی بھی ہمت نہ ہارنے کی بات اور اس میں زندگی کے جھٹکوں سے نمٹنے کی بات ہے اور یقین پیدا کرنے کی بات ہے کہ آپ ہر آزمائش سے کامیابی کے ساتھ نکل سکتے ہیں۔‘
مانچسٹر سے تعلق رکھنے والی لورا بِیٹی کو امید ہے کہ قانون میں نئی تبدیلی سے انھیں اپنے لیے مناسب (میچنگ) پھیپھڑوں کے ملنے کی امید زیادہ ہو جائے گی۔ لیکن وہ افسوس کے ساتھ تسلیم کرتی ہیں کہ انھیں نئی زندگی تبھی مل سکے گی جب کسی کا کوئی پیارا موت کا شکار ہو گا۔
’یہ اعضا اس وقت آپ کو ملتے ہیں جب کوئی ہلاک ہوجاتا ہے اور اس کہانی کے اس رخ پر بات کرنا خوف زدہ کر دیتا ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ اعضا کے زیادہ عطیات دینے کے معاملات پر بات کرنے سے اس پر بحث بھی زیادہ ہو گی۔‘
اس نے زندگی بچائی
کیتھ اسٹبری اور ان کی بیٹی پِپّاتصویر کے کاپی رائٹKEITH ASTBURY
Image captionکیتھ اسٹبری اور ان کی بیٹی پِپّا
دو برس قبل کیتھ اٹسبری کی بیٹی کے دماغ کی شریان پھٹ گئی۔
ان کی بیٹی کو مصنوعی طور وینٹیلیٹر پر زندہ رکھا گیا لیکن مسٹر اٹسبری کو معلوم تھا کہ ان کی بیٹی کی حالت اچھی نہیں ہے۔ چند گھنٹوں کے بعد انھیں پتہ چلا کہ ان کی بیٹی نے تین مختلف ذرائع سے اپنے اعضا کو اپنے مرنے کے بعد عطیہ کرنے کی وصیت کی ہوئی تھی۔
گریٹر مانچسٹر کے ٹریفرڈ نامی قصبے سے تعلق رکھنے والے کیتھ نے کہا ’ہم نے سوچا کہ اگر پِپّا کی یہی خواہش تھی تو اسی پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔‘
پِپّا کی سنہ 2018 میں موت ہوئی۔ اسکے بعد ان کے پھیپھڑے کا عطیہ وصول کرنے والی تین بچوں کی ماں کی جانب سے ان کے والدین کو خط موصول ہوا جس میں انھوں نے کہا کہ وہ ’دل کو جوش دلانے والا‘ تھا اور ’تکلیف دہ میٹھا‘ بھی۔ اس عطیے سے اس عورت کو نئی زندگی ملی۔
اسٹبری جو اس وقت این ایچ ایس کے عطیات دینے کی حوصلہ افزائی کی مہم کے سفیر ہیں، کہتے ہیں کہ دونوں خاندانوں کے درمیان خطوط کا تبادلہ ہوا جس سے ان دونوں کو سکون ملا۔
انھوں نے کہا کہ ان کی بیٹی اس وقت تینتالیس برس کی ہوتیں اور ایک ایسی ماں جو اپنے بچے کے لیے زندہ ہوتی اور لوگوں میں مقبول شخصیت ہوتی، جو ہر شخص کا خیال رکھتی، وہ اتنا زیادہ خیال رکھتی تھی کہ اس نے ایک سوشل ورکر کی حیثیت سے دوسروں کو بھی اسی کی تربیت دیبے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔
مسٹر اٹسبری کہتے ہیں کہ ’پِپّا کے اعضا ضائع نہیں ہوئے۔ اس نے ایک انسان کی زندگی بچائی اور ہم سمجھتے ہیں کہ پِپّا کا ایک حصہ اب بھی زندہ ہے اور اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔‘
Hina Sharma went to the hospital last year. He feared he might have a chest infection, but found out that his heart was about to collapse. At the time, she was healthy and well, but then she was diagnosed with a viral infection called "dilated cardiomyopathy." Hina Sharma is a resident of Mayfield, a town in Essex. He had to be hospitalized several times. They also had to stay in the intensive care unit to avoid the serious effects of the infection. But she became so ill that she realized that she would have to change again. When her consultant advised her to have a heart transplant, 29-year-old Hina said she had a heart attack but the transplant had its own problems. They had to wait six weeks for someone's heart to come. Two hearts were available during this time, but they were not suitable for their bodies, meaning they did not 'match'. There was no particular joy, no particular excitement when the third heart was reported to be available. "We were listening to music in our room and having fun," Hina said. Read more: "My baby died but he gave life to a baby." Artificial skin is now within the reach of every Pakistani How can a person who has no one in the world get a transplant? Image copyright HANNAH SHARMA Image caption Hina Sharma knew that she had been in the hostel for a long time Hina's heart transplant operation took four and a half hours and she regained consciousness the next day under anesthesia. "I remember sitting on my bed and I was listening to her, I was thinking I was listening to my heartbeat. It was very loud but it was not the sound of my heart beating. My mind couldn't understand that. " Within 24 hours, Hina began to get out of bed. A week after the transplant, he fulfilled his long-cherished wish and sent his sister to buy a puppy from the beloved. It was the dog he had seen on face time during his stay in the hospital and was handed over to her when she was discharged from the hospital two weeks after the transplant. "I have wanted to raise a dog for a long time, but my mother used to say, 'No, you can't have a dog,' but I always said, 'I want it now, that's life.' Hina Sharma says that now the future is a bit 'sharp'. They may experience additional side effects from the use of the medicine and now there is always the risk that their body may reject the implanted heart at any time. Hina says that when she was recovering from the operation, she was thinking of the donor, the 55-year-old woman whose family she would write a letter to. "Life is very different from what I thought, but I don't want to spend my time in it and I want to live a full life as long as I'm healthy." "Some people have lived for 35 years after a heart transplant, so I can live for many years. On the one hand, it creates fear, but maybe my life would have ended last year. That is why I am thankful for every moment of my life. " "It's not a joke, it could have been worse." Faizan had a kidney transplant at the age of three and is now awaiting a third transplant. Faizan Awan needed a new kidney from birth. So he doesn't remember that he had a kidney transplant at the age of three, but he does remember that his life was different from the rest of the children. He could not participate in any sports during this time and when his peers went to the cinema he had to go for dialysis. He had his second operation at the age of fourteen and then another kidney transplant donated by his father. According to the British National Health Service (NHS), the average age of a transplanted kidney is ten to fifteen years. So now Faizan Awan, now 34, needs a new kidney transplant for the third time, but he and his family are ready to face the facts and know what to expect. "Until then, we can do nothing but wait." Image copyright FAIZAN AWAN Image caption Faizan Awan underwent his first kidney transplant operation at the age of three, after which he ate solid food for the first time. Faizan says he has been waiting for a kidney donation for the past five years because minorities are less likely to donate their organs. He hopes the change in the law will increase his chances of getting a kidney, as it will lead to more discussion in South Asian communities and he can start donating human organs. "Some of it is racial prejudice. My grandfather's and grandfather's generation and the generation before them never donated human organs in Pakistan. This was the norm at the time when they migrated and came here while the system here was something else. "There are many things in Islam that you can use against organ donation. There is no clear rule as to whether you can donate or not. Faizan Awan is now the NHS Human Organ Donation Awareness Ambassador and a volunteer for the Kidney Patients Association of Lancashire and South Cambria where he provides dialysis and kidney transplants to patients and their caregivers. I help "People are relieved in a way that this is not the worst thing in the world," Faizan said. It's not a joke, it could have been worse. " What has changed? From Wednesday it will be assumed that all adults in England have consented to donate their organs after their death, except those who have formally sought exemption from this consent process or belong to this group. There are those who have been separated from organ donors. The new law has been dubbed the Max & Cara law, the law for two children. Nine-year-old Cara Ball saved four lives, including one-year-old Max Johnson. After his death in a car accident in Kamsani, his father allowed his organs to be donated to the needy. According to the NHS, it is estimated that this change in the law will save 700 lives a year in England by 2023. Human organ donation is being openly discussed Image copyright LAURA BEATIE Image caption Laura Betty and her sister created a brand new women's clothing brand Two years ago, Laura Betty received the long-awaited news that her lungs would be transplanted. Laura, 31, was born with cystic fibrosis, a life-threatening familial disease that damages the lungs. In 2016 his respiratory problems worsened and his condition began to worsen, he was examined to be selected for transplantation. After learning that she needed a transplant, Laura Betty began preparing for the procedure with a team of NHS specialists and psychologists. „I was probably not ready to admit it. I probably prepared myself for everything. I was just worried about myself. And I was scared. I have never had an operation before. " "You are mentally prepared for it. Now you think that when you have a transplant operation, you have all kinds of tests and all this keeps you busy and pays full attention to you so that everything is fine. "And during this time you have mixed feelings and new feelings are created in you every day." Laura had a hard time finding clothes of her own size, her ribs were a bit too big due to the disease. Laura's sister Rachel, who was 14 at the time, had a new idea why not start a new one. And now, a decade later, she is working with teams from Manchester, Italy and Portugal. "It's a matter of strong will and courage," says Laura Betty. I work hard for my treatment and to keep myself in good shape, I also work hard for my business, they are the same thing. "It's a matter of never giving up and dealing with the shocks of life in it and building confidence that you can overcome every ordeal successfully." Laura Betty, from Manchester, hopes the new law will give her more hope of finding a matching lung. But she sadly admits that she will be able to find a new life only when someone's loved one dies. "You get these organs when someone dies and it's scary to talk about this side of the story, but I think there's more to the debate than just talking about organ donation." Will 'He saved lives' Image copyright KEITH ASTBURY Image caption Keith Stubber and his daughter, Dad Two years ago, Keith Atsbury's daughter had a cerebral artery rupture. His daughter was artificially kept alive on a ventilator, but Mr Atsbury knew his daughter was not well. A few hours later, he found out that his daughter had bequeathed her organs to him after her death through three different means. Keith, from Trafford, Greater Manchester, said: "We thought that if this was Papa's wish, it should be carried out. Dad died in 2018. His parents then received a letter from the mother of three children who had received a donation of their lungs, saying it was "heart-warming" and "painful sweet". This gift gave this woman new life. Stubbery, who is currently the ambassador for the NHS Donation Encouragement Campaign, says the two families exchanged letters that brought them peace of mind. She said her daughter was forty-three years old at the time and a mother who was alive for her child and a popular figure who cared for everyone, she cared so much that she became a social worker. It was decided to train others as well. Mr Atsbury says: 'Pippa's limbs have not been lost. He saved a human life and we believe that part of Pippa is still alive and still with us. ""

The United States and Russia were absent from a funding conference on coronavirus vaccine on Monday,

  1. دنیا بھر میں کورونا وائرس کے متاثرین کی تعداد 52 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ تین لاکھ سے زیادہ افراد اس سے ہلاک ہو چکے ہیں۔
  2. پاکستان میں متاثرین کی تعداد 53 ہزار سے زائد ہے جبکہ اموات ایک ہزار سے زیادہ ہو گئی ہیں۔
  3. اس وقت کووڈ 19 کے سب سے زیادہ متاثرین امریکہ میں 15 لاکھ سے زیادہ ہیں۔
  4. فہرست میں تیسرے نمبر پر برازیل آچکا ہے جہاں متاثرین تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ برطانیہ اموات کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر ہے۔
  5. چین کے وزیر اعظم نے آنے والے وقت کے لیے غیر یقینی صورتحال اور شدید معاشی مشکلات کے حوالے سے متنبہ کیا ہے۔
  6. انڈیا میں کورونا وائرس کے ساتھ سمندری طوفان کی قدرتی آفت کے لیے بھی وسائل مختص کرنے پڑ رہے ہیں۔
  7. گذشتہ ایک روز میں پاکستان میں کورونا کے سب سے زیادہ 2603 متاثرین کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ اسی دوران 50 اموات ہوئی ہیں۔
  8. پاکستان میں کورونا سے اموات کے اعتبار سے خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں اب تک 389 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
  9. پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں عید کے دنوں میں مارکیٹیں صبح 9 بجے سے رات 10 بجے تک کھلی رہیں گی۔ یہاں اب تک 18 ہزار سے زیادہ متاثرین کی تصدیق ہوچکی ہے۔
  10. متاثرین کے اعتبار سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ سندھ ہے جہاں متاثرین کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ ہو گئی ہے۔
The United States and Russia were absent from a funding conference on coronavirus vaccine on Monday, but China has not promised any direct funding for research into vaccine development and treatment. Two centers of pharmaceutical power: US and China's efforts to develop separate vaccines point to a worrying situation. European countries believe that the ownership of the vaccine developed for this virus should be recognized by all countries. Countries that support the idea of ​​European countries are concerned that there is currently a competition for vaccine development. Geneticist Kate Bradyrich is part of a team of scientists who are one of 44 projects around the world trying to develop a vaccine for code 19. She is part of a team of researchers at the US biotechnology company Enview, which plans to produce one million doses of the vaccine by December. But where and who will get this vaccine? Article share tools

کورونا وائرس: بخار، کھانسی اور سانس میں دشواری، اس بیماری کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے محفوظ رہا جائے؟

دنیا بھر میں کورونا وائرس کا پھیلاؤ جاری ہے اور اب تک مصدقہ متاثرین کی تعداد 50 لاکھ کے قریب اور ہلاکتوں کی تعداد تین لاکھ 23 ہزار سے زیادہ ہے۔ پاکستان پر نظر ڈالیں تو وہاں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 47 ہزار سے زیادہ ہے جبکہ 1000 سے زیادہ افراد اس وبا کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہیں۔
محققین کے مطابق دنیا میں کورونا سے متاثر ہونے والے 80 فیصد افراد میں اس کی معمولی علامات ہی دکھائی دی ہیں اور ایسے لوگ جن میں یہ علامات شدت سے پائی گئیں اقلیت میں ہیں۔
سو سوال یہ ہے آپ اسے کیسے شناخت کر سکتے ہیں۔

کووڈ-19 کی علامات کیا ہیں؟

یہ وائرس پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے اور دو بنیادی علامات بخار اور مسلسل خشک کھانسی ہیں۔
صحت کے برطانوی قومی ادارے کے مطابق خشک کھانسی کا مطلب گلے میں خراش پیدا کرنے والی ایسی کھانسی جس میں بلغم نہیں نکلتا۔
کورونا بینر
لائن
مسلسل کھانسی کا مطلب ہے کہ آپ قریباً ایک گھنٹے تک کھانستے رہیں ہوں یا چوبیس گھنٹے کے عرصے میں آپ کو کھانسی کے کم از کم تین دوروں کا سامنا کرنا پڑا ہو یعنی کہ آپ کی کھانسی عام حالات کے مقابلے میں زیادہ ہو۔
اس کا نتیجہ سانس پھولنے کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے جسے اکثر سینے کی جکڑن، سانس لینے میں مشکل یا دم گھٹنے جیسی کیفیت بھی کہا جاتا ہے۔
اگر آپ کے جسم کا درجۂ حرارت 37.8 سنٹی گریڈ یا 98.6 فارن ہائٹ سے زیادہ ہو تو آپ کو بخار ہے۔ بخار کی صورت میں آپ کا جسم گرم ہو سکتا ہے، آپ کو سردی لگ سکتی ہے یا کپکپی طاری ہو سکتی ہے۔
کورونا کی علامات
اس کے علاوہ متاثرین میں گلے کی خرابی، سر درد اور اسہال کی علامات بھی پائی گئی ہیں جبکہ کچھ مریضوں نے ذائقے اور سونگھنے کی حس متاثر ہونے کی شکایت بھی کی ہے۔
عموماً کسی مریض میں علامات ظاہر ہونے میں پانچ دن کا عرصہ لگتا ہے لیکن کچھ افراد میں یہ دیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق انفیکشن کے لاحق ہونے سے لے کر علامات ظاہر ہونے تک کا عرصہ 14 دنوں پر محیط ہے لیکن کچھ محققین کا کہنا ہے کہ یہ 24 دن تک بھی ہو سکتا ہے۔

کتنے مریضوں میں کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں؟

چینی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کچھ لوگ خود میں علامات ظاہر ہونے سے پہلے بھی انفیکشن پھیلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔
بخار
حال ہی میں برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ-19 سے متاثر ہونے والے 78 فیصد افراد میں اس کی واضح علامات ظاہر نہیں ہوئیں یعنی طبی زبان میں وہ اےسمپٹمیٹک مریض تھے۔
اس تحقیق کے نتائج اس اطالوی گاؤں میں کی گئی تحقیق کے نتائج سے مطابقت رکھتے ہیں جو کورونا کی اس وبا کا ایک بڑا مرکز بنا۔ وہاں 50 سے 75 فیصد مریضوں میں بھی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوئیں لیکن وہ اس کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ضرور بنے۔
آئس لینڈ میں کی گئی ایک اور تحقیق کے مطابق وہاں جن افراد میں کووڈ-19 کی تصدیق ہوئی ان میں سے 50 فیصد میں اس کی کوئی علامت موجود نہیں تھی۔
دریں اثنا عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے 56 ہزار مریضوں کے معائنے کے نتائج کے مطابق:
80 فیصد میں معمولی علامات جیسے کہ بخار اور کھانسی پائی گئی جبکہ کچھ کو نمونیہ بھی تھا۔
14 فیصد میں شدید علامات پائی گئیں اور ان مریضوں کو سانس لینے میں شدید مشکل کا سامنا تھا۔
06 فیصد شدید بیمار تھے جن کے پھیپھڑے اور جسم کے دیگر اہم اعضا ناکارہ ہو چکے تھے اور ان کی موت کا خطرہ تھا۔
وینٹیلیٹر
کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد میں سے اکثریت آرام اور پیراسٹامول جیسی درد کش ادویات کے استعمال کے بعد ٹھیک ہو جائیں گے۔
اگر آپ کو بخار ہو جائے، کھانسی ہو یا سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہو تو آپ کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سانس کا کوئی انفیکشن یا کوئی دیگر چیز ہو سکتی ہے۔
مجھے کب ہسپتال جانے کی ضرورت ہے؟
کووڈ-19 میں وہ بنیادی وجہ جس بنا پر لوگوں کو ہسپتال جانا پڑتا ہے، سانس لینے میں دشواری ہے۔
ہسپتال میں ڈاکٹر آپ کے پھیپھڑوں کا معائنہ کریں گے تاکہ دیکھیں کہ وہ کتنے متاثر ہیں۔ زیادہ بیمار افراد کو انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں منتقل کر دیا جاتا ہے جو شدید بیمار افراد کے لیے خصوصی طور پر بنائے گئے ہیں۔
کورونا وائرس کے مریضوں کو آکسیجن دی جاتی ہے جو چہرے پر ماسک یا پھر ناک میں نلکی کی مدد سے فراہم کی جاتی ہے۔
بہت ہی زیادہ بیمار مریضوں کو وینٹیلیٹر پر منتقل کر دیا جاتا ہے اور یہ آلہ منھ، ناک یا گلے میں سوراخ کر کے لگائی گئی ایک ٹیوب کے ذریعے زیادہ آکسیجن ان کے پھیپھڑوں میں داخل کرتا ہے۔
سماجی دوری
کووڈ-19 سے متاثر ہونے کا زیادہ خطرہ کس کو ہے؟
معمر افراد اور وہ لوگ جو پہلے سے کسی بیماری جیسے کہ دمہ یا ذیابیطس یا دل کی بیماری کا شکار ہیں، کورونا وائرس سے زیادہ جلدی متاثر ہو سکتے ہیں۔
مردوں کے اس وائرس کا شکار ہونے کا خطرہ خواتین کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے۔
معمولی مریضوں کی صحت یابی میں چند دن سے کئی ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے لیکن اگر کوئی ہسپتال میں اور وہاں بھی انتہائی نگہداشت میں ہے تو اسے تندرست ہونے میں تو کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔

کورونا وائرس کس قدر جان لیوا ہے؟

طبی جریدے لینسٹ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق کووڈ- 19 سے مرنے والوں کی شرح ابتدا میں ایک سے دو فیصد رہی لیکن اب یہ 0.66 فیصد ہے۔
یہ عام فلو سے ہلاک ہونے والوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ انفلوئنزا سے دنیا میں ہلاکتوں کی شرح 0.01 فیصد ہے
لیکن کورونا سے مرنے والوں کی اصل شرح کا اندازہ لگانا فی الحال ممکن نہیں کیونکہ اس کے بہت سے مریض سامنے نہیں آئے ہیں۔
ماسک
ہم خود کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے:
  • اپنے ہاتھ ایسے صابن یا جیل سے دھوئیں جو وائرس کو مار سکتا ہو۔
  • کھانستے یا چھینکتے ہوئے اپنے منہ کو ڈھانپیں، بہتر ہوگا کہ ٹشو سے، اور اس کے فوری بعد اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس پھیل نہ سکے۔
  • کسی بھی سطح کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں ، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کریں۔ وائرس سے متاثر ہونے کی وجہ سے یہ آپ کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
  • ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں جو کھانس رہے ہوں، چھینک رہے ہوں یا جنہیں بخار ہو۔ ان کے منہ سے وائرس والے پانی کے قطرے نکل سکتے ہیں جو کہ فضا میں ہو سکتے ہیں۔ ایسے افراد سے کم از کم ایک میٹر یعنی تین فٹ کا فاصلہ رکھیں۔
  • اگر طبیعت خراب محسوس ہو تو گھر میں رہیں۔ اگر بخار ہو، کھانسی یا سانس لینے ںمی دشواری تو فوری طبی مدد حاصل کریں۔ طبی حکام کی ہدایت پر عمل کریں۔